Allama Iqbal Quotes
“Allama Iqbal Quotes, Allama Iqbal also known as Muhammad Iqbal, was a prominent philosopher, poet and scholar of the 20th century. He has been hailed as the “spiritual father of Pakistan” for his influential role in inspiring the idea of an independent Islamic state. Iqbal’s poetry, mainly written in Urdu and Persian, is famous for its profound philosophical and spiritual themes, advocating self-discovery and the rebirth of the Muslim world. His visionary ideas continue to resonate with people around the world, making him a respected figure in Urdu literature and a lasting inspiration. »
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
کہاں سے تُو نے اے اقبال، سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچابادشاہوںیں ہے تیری بے نیازی کا
آنکھ جوکُچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
غُلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ،نئی صبح و شام پیدا کر۔
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
شاہین کبھی پرواز سے گِر کر نہیں مرتا
پر دم ہے اگرتو، تو نہیں خطرۂ افتاد۔
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے۔
ڈھو نڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آ پ کو
آ پ ہی گویا مسافر آ پ ہی منزل ہوں میں۔
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔
میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا
مگر شرط ہے اپنے اندر میری جستجو پیدا کر
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں۔
بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال نقتہ چینوں میں۔
یہ جنت رہے مبارک زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر
مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
خواہشیں بادشاہوں کو غُلام بنا دیتی ہیں
مگر صبر غُلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے
عِلم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنّت ہے جِس میں حوّر نہیں
اپنے کردار پے ڈال کر پردہ اقبالؔ
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں۔
نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آ سمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے ،تو نہیں جہاں کے لئے۔
ذرا سی بات تھی ،اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستان کے لئے.
من کی دولت ہاتھ آ تی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ،آ تا ہے دھن جاتا ہے دھن۔
ایک بار آ جا اقبال ؔ پھر کسی مظلوم کی آواز بن کر
تیری تحریر کی ضرورت ہے کسی خاموش تقریر کو یہاں۔
یورپ کی غلامی پے رضا مند ہوا تُو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں۔
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہوکے ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
اگر محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر
جہاں سے عشق چلتا ہے وہاں تک نام پیدا کر
اگر سچ ہے تیرے عشق میں تو اے بنی آدم
نگاہِ عشق پیدا کر جمالِ ظرف پیدا کر
اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا
تو اپنے اندر پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر