khawahishoon ka cancer

مجھے یاد ہے جب میں تین چار سال کی تھی، تب میں نے ماں کے ساتھ کام پر جانا شروع کیا تھا۔ میں ماں کا ہاتھ بٹانے کی بجائے اس کو تنگ کیا کرتی تھی۔ جب ماں میری رُوں رُوں سے زچ آجاتی تو کبھی مجھے پیار کرتی اور کبھی دو تین تھپڑ رسید کر کے اپنی قسمت کو کوسنے لگتی تھی۔ آہستہ آہستہ شعور آنے لگا تو میں ماں کو تنگ کرنے کی بجائے اُس کا ہاتھ بٹانے لگی۔ اس دوران ماں نے کئی گھر بدلے اور میں اس کی محنت و مشقت کا ایک لازمی جزو بنتی گئی۔ ہوش سنبھالتے ہی اپنے باپ کو ہوش و خرد سے بیگانہ پایا۔ نشے کی دلدل میں وہ تمام عمر غرق رہا۔ ماں جتنا بھی کوستی، وہ پتھر کی صورت بنا سنتا رہتا۔ ایک دن مزدوری کر لیتا تو ایک ماہ فارغ رہتا۔ گھر کا خرچہ ماں کے کندھوں پر تھا۔ مجھ سے چھوٹے سات بہن بھائی اور تھے ، بھوکے پیاسے، روتے سسکتے ہوئے۔ ننھے منے انسانوں کی اس فوج سے ہماری کٹیا میں بھونچال سا رہتا تھا۔ اس بھوکی پیاسی فوج کو ماں اکیلے نہیں پال سکتی تھی۔ باپ تو نشے کی دلدل میں گردن تک دھنس چکا تھا۔ وہ گھر سے بیگانہ ہو کر کبھی قبرستان اور کبھی کسی مزار پر فقیروں کے ڈیرے پر رہنے لگا تبھی ماں نے میرے لئے کام ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ میں چاہتی تھی کہ میرے بہن بھائی بھوکے نہ رہیں لہذا خوشی خوشی کام پرجانے لگی۔ جب میں بارہ برس کی ہوگئی تو تمام کام کرنے لگی۔ ماں بیمار ہو جاتی تو میں گھروں میں ماں کی جگہ کام کر لیتی۔ واصف کے یہاں کام کرتے ماں کو دو سال ہو گئے تھے۔ یہ میاں بیوی شریف لوگ تھے۔ ان کے یہاں میں ماں کے ساتھ جاتی تھی۔ ان کی بیگم مجھ سے محبت سے پیش آتیں۔ وہ بیمار رہتی تھیں، انہیں سانس کی تکلیف تھی، جب تکلیف بڑھ جاتی میں ان کی خدمت پر مامور ہو جاتی۔ انہیں دوا پلاتی، چائے وغیرہ دیتی۔ وہ مجھ کو بہت چاہتی تھیں کیونکہ میں ان کی خدمت کرتی تھی۔ شکل و صورت میری اچھی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ طاہرہ تو سکینہ کے یہاں پیدا نہ ہوتی، کسی امیر گھر کی مالکن ہوتی، تب میں شرمانے کی بجائے ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہو جاتی تھی۔ مالکن اکثر مجھے اپنے کپڑے دیا کرتی تھیں۔ میں ان کی اترن پہن کر بہت خوش ہوتی۔ ان کو پہن کر مجھ پر نکھار آجاتا تھا۔ میرا بدن چھریرا تھا، وہ بھی بیماری سے دبلی ہو گئی تھیں۔ ان کے کپڑے مجھے ٹھیک آجاتے تھے ۔ جب کبھی میں نہا کر ، ان کے دیئے لباس پہن لیتی تو مالکن مجھ کو دیکھ کر خوف کھا جاتیں، کہتیں۔ لڑکی تو خود کو چھپا کر رکھ ۔ یہ دنیا بڑی بری جگہ ہے ، گھر سے نکلتے سمے چادر اوڑھ لیا کر، لہذا میں جب گھر جاتی تو خود کو ایک بڑی چادر میں چھپا لیتی۔ میں اتنی خوبصورت تھی کہ سڑک پر چلتے لوگ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے۔

واصف صاحب عمر رسیدہ صوفی منش انسان تھے۔ نماز، روزے کے پابند اور دل میں خوف خدار کھنے والے آدمی تھے- مگر اللہ تعالی نے ان کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا، شاید اسی لئے وہ مجھ سے ایسا سلوک رکھتے تھے جیسا کوئی اپنے بچوں سے رکھتا ہے۔ انہی دنوں سنا کہ ان کے چھوٹے بھائی دبئی سے آرہے ہیں ، ان کا نام عارف تھا۔ میرا کام بڑھ گیا- کیونکہ واصف صاحب نے کہا تھا کہ میرے چھوٹے بھائی کو کوئی کمی محسوس نہ ہو۔ وہ میرا بھائی ضرور ہے لیکن میں اسے اپنا بیٹا سمجھتا ہوں۔ مالک کے کہنے پر میں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گھر کو شیشے کی طرح چمکا دیا۔ عارف کے کمرے کو سجا سنوار کر گلزار بنا دیا۔ عارف مجھے متاثر کن شخصیت نہ لگا۔ نجانے اس میں کیا ایسی جھلک تھی کہ مجھے اس کے سامنے جانے سے وحشت ہونے لگتی تھی۔ اس کے آجانے کے بعد جلد گھر جانے کی کوشش کرتی تھی۔ ہر طرح اس سے پہلو بچا کر رکھتی تھی لیکن جتنا میں اس سے کنی کتراتی وہ میرے پیچھے آتا تھا اور کوئی نہ کوئی بات شروع کر دیتا میں خاموشی سے نظر انداز کرتی مگر وہ اپنی ہانکے جاتا۔ ایک روز صبح ہی صبح دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو وہ سامنے کھڑا تھا۔ بولا۔ گھر میں رات اچانک مہمان آگئے۔ بھابھی نے بلایا ہے ، جلدی چلو۔ ماں بولی۔ ہاں ہاں تو جا، میں بچوں کو ناشتہ دے دوں گی۔ میں چادر کی بکل مارے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی گیٹ کے اندر گئی تو میں نے دیکھا، گھر میں مکمل سکوت تھا۔ سکوت تو پہلے بھی رہتا تھا۔ بیگم صاحبہ اپنے کمرے میں لیٹی رہتی تھیں اور میں خاموشی سے کام کرتی رہتی تھی لیکن آج کا سکوت گہرا تھا۔ میں نے بیگم صاحبہ کے کمرے میں جا کر دیکھا۔ وہ خالی تھا، باتھ روم کھول کر دیکھا وہاں وہ نہ تھیں۔ انہیں پکارا، جواب نہ ملا تبھی میں نے باہر آ کرعارف سے پوچھا۔ صاحب ! آپا بیگم صاحبہ کہاں ہیں ؟ کہنے لگا۔ ان کے بھائی کا۔ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ، بھائی صاحب اور بھابھی ملتان گئے ہیں۔ وہ شام تک لوٹیں گے۔ مجھے بھی جانا ہے ، اسی لئے تمہیں لایا ہوں۔ اگر وہاں بتا دیتا تو تم گھبرا جاتیں۔ گھر کا خیال کرنا لیکن پہلے مجھے ناشتہ بنا دو۔ میرا دل دھک سے ہوا مگر خود پر قابو پا کر میں باورچی خانے چلی گئی اور اس کے لئے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر اپنے کمرے میں جا کر وہ پھر باورچی خانے میں آ گیا۔ کہنے لگا۔ ناشتے کی ٹرے میرے کمرے میں لے آنا۔ جب میں ٹرے لے کر اس کے کمرے میں گئی ، وہ اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھا اور بولا۔ اتنی اچھی شکل وصورت ہے پھر بھی کسی کے گھر کا کام کرتی ہو۔ تمہیں نوکرانی نہیں، ہمارے جیسے کسی گھر کی رانی ہونا چاہئے تھا۔ میں نے جواب نہ دیا۔ خاموشی سے چائے اس کی پیالی میں انڈیلنے لگی تو وہ کہنے لگا۔ تم نہیں جانتیں تمہیں کام کرتے دیکھ کر میرا دل کس قدر کڑھتا ہے۔ تمہیں اپنی خوبصورتی کا احساس نہیں ہے۔ میں واپس جانے کو مڑی تو وہ پھرتی سے دروازے پر آگیا۔ میں نے کہا۔ صاحب رستہ چھوڑو۔ ایک شریف انسان کے آپ بھائی ہو۔ ان کی شرافت کا تو لحاظ کرو۔ مجھ کو خطرے کا پوری طرح احساس ہو چکا تھا لیکن اتنی جلد کسی اچانک حملے کے لئے میں تیار نہ تھی، تبھی میری فریاد ایک بے بس پنچھی کی مانند شیشے کے دروازوں اور دیواروں سے ٹکرانے لگی۔ غم کے مارے میں تو مر جاتی کہ اچانک کسی نے گھنٹی بجائی، یوں اس کو گیٹ پر جانا پڑا۔ میں پچھلا دروزے سے بھاگ کر گھر پہنچی۔ میری صورت ہونق تھی۔ ماں مجھ کو دیکھ کر چونک گئی۔ میں نے سب کچھ اس کو بتا دیا۔ اس پر تھوڑی دیر کے لئے سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ خاموشی سے سر پکڑ کر دیوار کے سہارے بیٹھ گئی۔ کہنے لگی اگر تیرا باپ نشہ نہ کرتا اور غیرت مند ہوتا تو عارف کا نشان باقی نہ رہنے دیتا مگر ہم تو اس کے ہوتے غریب اور لاوارث ہیں۔ رات بھر میں اپنی جگہ اور ماں اپنے بستر پر جاگتی رہیں۔ صبح میں نے کام پر جانے سے انکار کر دیا مگر ماں نے کہا۔ بیٹی ہم غریب ہیں۔ تو جہاں بھی کام پر جائے گی، کوئی نہ کوئی بات ہو گی۔ تم ذرا مجھے وہاں جانے دو۔ کیا پتا بیگم صاحبہ اور صاحب آ گئے ہوں، ان کو قصہ بتا کر ہی کام چھوڑیں گے۔ وہ نہیں ہوں گے تو عارف ہوگا، اس سے بات کروں گی- ورنہ مالک اور مالکن ہم کو نمک حرام اور چور سمجھیں گے۔ واصف صاحب اور ان کی بیگم نہیں لوٹے تھے۔ عارف گھر میں موجود تھا۔ ماں نے اس سے کہا۔ تم نے میری بیٹی کی طرف کیا سمجھ کر ہاتھ بڑھایا ؟ ہم غریب ضرور ہیں مگر محنت کر کے کھاتے ہیں۔ میں واصف صاحب سے تمہاری شکایت کروں گی اور سارا قصہ بتائوں گی۔ طاہرہ بھی آئے گی اور سامنے بات ہو گی۔ وہ کہنے لگا۔ مجھے معاف کر دو خالہ۔ میرے بھائی بھابی کو نہ بتانا۔ میں تو ویسے چند دن بعد دبئی واپس جارہا ہوں۔ تم کام چھوڑ دو یا بھابی تم کو نکال دیں، دونوں صورتوں میں نقصان تمہارا ہے۔ ہاں اگر تم چاہو تو میں تمہاری مالی مدد کر سکتا ہوں لیکن تم اپنی زبان بند رکھنا۔ ٹھیک ہے۔ ماں نے کہا۔ مدد کرو تو میں کسی سے کچھ نہ کہوں گی۔ عارف نے ماں کو بیس ہزار روپے دیئے اور کہا کہ یہ رکھ لو۔ تمہارے کام آئیں گے۔ کل سے تمہاری بیٹی نہ سہی، تم آ کر میرا کھانا بنا جانا جب تک بھابی اور بھائی نہیں آجاتے۔ دراصل تمہاری بیٹی خوبصورت بہت ہے، اس سے کام نہ کرائو۔ ماں رقم لے کر آگئی اور کہا۔ بد معاش سے بیس ہزار روپے لے آئی ہوں، جھونپڑی کی جگہ ایک کمر ا تو بنوا لوں گی۔

مجھے ماں کی یہ بات اچھی نہ لگی۔ میں نے کہا ماں تم نے اس سے رقم کیوں لی؟ آصف صاحب کو شکایت کرنا تھی۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ اس رقم کو چولہے میں پھینک دوں۔ پاگل لڑکی ، تیری عزت تو خدا نے بچا لی، اب بات مالکن یا مالک سے کہنے سے کیا ملے گا ؟ الٹا ان کا کام چھوڑنا پڑے گا۔ وہ خود تو شریف لوگ ہیں اور وہ نامراد یوں بھی دبئی جانے والا ہے۔ زبان کھولے گی تو ان کی عزت پر کچھ نہیں آئے گا، اپنی ہی عزت پر باتیں بنیں گی۔ روپے کیوں نہ لیتی، کمرہ بن جائے گا، میرے بچے تو بارش میں نہ بھیکیں گے۔ غربت کا اتنا بھیانک چہرہ میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ یقین نہ آیا، عارف کا گریبان پکڑنے کی بجائے ماں کی ممتا بک بھی سکتی ہے۔ میں جب تک وہاں نہ گئی کہ جب تک واصف صاحب اور بیگم نہ آگئے۔ عارف بھی دبئی چلا گیا تو مجھے سکون مل گیا۔ اب ماں کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ سوچا کب تک جوان لڑکی سے دوسروں کے گھروں میں کام کروائوں گئی۔ مجھے سے چھوٹی بھی بارہ برس کی ہورہی تھی، سوماں نے دور کی خالہ کے بیٹے سے میرے رشتے کی بات چلائی، جو چوکیداری کرتا تھا۔ میری ظفر سے شادی ہو گئی۔ میں چھ ماہ کی دلہن تھی کہ ایک روز ساس کہیں رشتہ داروں سے ملنے گئی۔ واپس آئی تو اس کے زیور غائب تھے ، خدا جانے اس کے شوہر نے اٹھا لئے کہ داماد نے یا خود اس کی بیٹی نے مگر نام میرا لگا دیا۔ میرے تو فرشتوں کو خبر نہ تھی کہ کتنے زیور ہیں، کہاں رکھتی ہے۔ لاکھ روئی، قسم کھا کر کہا کہ میں نے نہیں اٹھائے لیکن ساس کو یقین نہیں آیا۔ بولی۔ میرے اپنے کیوں چرائیں گے۔ یوں بات بڑھی، میری ماں کو بلوایا گیا۔ ان کو بہت غصہ آیا، مجھے غصے میں اپنے ساتھ لے کر آگئیں۔ وہ لوگ پھر مجھے لینے نہ آئے ، ماں نے بھی نہ بھیجا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ کل پھر کوئی اور الزام لگا دیں گے۔ غرض سال بھر میکے رہی، انہوں نے بالآخر طلاق بھجوا دی۔ پھر سے ماں میرے لئے کام ڈھونڈنے لگی۔ آخر ایک بنگلے پر کام مل گیا اور میں پھر سے کام کرنے لگی۔ماں پر بوجھ تو نہ بن سکتی تھی، پیٹ پالنا تھا۔ یہاں مالکن تو اچھی تھی مگر اس کی سہیلیاں میرا تن من جلاتیں۔ اسے کہتیں۔ نورجہاں ذرا خیال سے رہنا، اتنی خوبصورت نوکرانی رکھ لی ہے، کہیں میاں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھنا اور مالکن ان کو کہتی ارے نہیں۔ میرے میاں ایسے نہیں ہیں۔ میں کان بند کر کے کام میں مشغول رہتی کہ سنوں گی اور نہ توہین کا احساس ہو گا۔

نیا مالک کچھ رنگین مزاج تھا، قالینوں کا کاروبار تھا۔ دولت مند اور خوبصورت بھی تھا۔ روز سج بن کر گاڑی میں بیٹھتا۔ مجھے وہ بھلا لگتا۔ دعا کرتی ، اے اللہ تو مجھے بھی ایسا شوہر دے۔ دنیا میں لوگوں کو تو نے اتنی دولت دی ہے اور ہم کو اتنی غریبی ، مالکن تو اپنی معمولی شکل وصورت کی ہے اور شوہر کتنا خو بصورت دولت مند اور شاندار ملا ہے۔ ایک روز وہ بن ٹھن کر سینٹ لگائے گاڑی میں بیٹھ رہا تھا کہ مجھے کہا۔ طاہرہ اندر سے میرا بیگ تولانا، جب میں بیگ لے کر اسے پکڑانے لگی تو بس اس کو دیکھتی رہ گئی۔ جیسے خوابوں کی دنیا میں کھو گئی تھی۔ تبھی اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ارے لڑکی کہاں کھو گئی ہو ؟ کیا مجھے نظر لگانے کا ارادہ ہے۔ لا بیگ مجھے دے۔ تبھی میں جھنیپ کر رہ گئی۔ بیگ ان کے ہاتھ میں دیا اور شرما کر اندر بھاگی۔ اس روز میرے کانوں میں سارا دن صاحب کے الفاظ گونجتے رہے۔ میرا ضمیر ملامت کرتا رہا کہ میں نے ایسا کیوں سوچا۔ اس دن کے بعد صاحب میں تبدیلی آگئی۔ اس کی مہربانیاں مجھ پر بڑھنے لگیں۔ ان مہربانیوں سے خوف زدہ ہو کر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے یہ گھر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ میں بیگم صاحبہ کی جوتیاں کھا کر یہاں سے نکلنا نہیں چاہتی تھی۔ جب میں نے کام چھوڑنے کا کہا تو صاحب نے اکیلے میں مجھ سے پوچھا۔ کیوں کام چھوڑ رہی ہو ؟ آپ کی وجہ سے۔ میں نے جواب دیا۔ وہ کہنے لگا۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں ورنہ تم اتنی خوبصورت ہو کہ میں تم سے شادی کر لیتا لیکن اب مجبور ہوں۔ ہاں چاہو تو الگ گھر میں رکھ سکتا ہوں، تم کو خرچہ دیتا رہوں گا۔ اس دن مجھے لگا جیسے اس آدمی نے میرے منہ پر تھوک دیا ہو۔ اسی دن میں نے بیگم سے ماں کی بیماری کا بہانہ بنا کر وہاں کا کام چھوڑ دیا کیونکہ بیگم میرے ساتھ بہت اچھی تھیں اور میں ان سے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اب ماں کہتی تھی کوئی دوسرا گھر ڈھونڈ اور کام پر لگ جا، کب تک ایسے بیکار بیٹھی رہے گی اور میں کہتی تھی ہر گز نہیں میں اب کہیں کام پر نہ جائوں گی۔ بے شک بھوکی مرجائوں، تم میری شادی کر دو۔ تم کنواری تو ہو نہیں، طلاق یافتہ کو تو رنڈوے، بچوں والے یا پھر ایسے کوئی رشتہ ملے گا جس کو دوسری شادی کی چاہ ہو گی۔ بلا سے سوتن ہو کہ بچوں والا ، گھر بیٹھا کر روٹی کھلائے۔ مجھے در در کا کام نہ کرنا پڑے۔ اماں میں ان امیروں کی جوتیاں سیدھی کرنے سے تنگ آگئی ہوں۔ اماں نے دیکھا کہ یہ تو بوجھ بانٹنے کی بجائے بوجھ بن رہی ہے۔ انہوں نے میرے رشتے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ آخر کار ایک رشتہ ڈھونڈ نکالا۔ ہماری جھگی کے اس طرف میدان میں ایک بڑی بلڈ نگ بن رہی تھی۔ اس کے ٹھیکیدار کے منشی سے اماں کی سلام دعا ہو گئی۔ اماں جب ادھر سے گزرتی منشی کھڑا ہو تا تو اماں اسی کہتی بیٹا کوئی اچھا شریف گھرانہ ہو تو بتانا۔ مجھے کام چاہئے۔ ایک دن اس نے پوچھا۔ اماں جی آپ تو پہلے ہی دو تین گھروں کا کام کرتی ہو۔ تھک جاتی ہوں گی اور کام کیونکر کر سکو گی ؟ ویسے تو ہمارے ٹھیکیدار صاحب کو کام والی چاہئے لیکن ان کا گھر دور ہے ، آپ وہاں نہیں جاسکتیں۔ اس طرح باتوں باتوں میں اماں نے اس کو اپنے حالات بتا دیئے کہ میری چار بیٹیاں ،دو بیٹے چھوٹے ہیں، شوہر کو نشے نے بیکار کر دیا۔ پیٹ پالنے کو گھروں میں کام کرتے ہیں۔ بچیاں بھی میرے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ہم حلال رزق کھاتے ہیں۔ بس ایک فکر دن رات کھاتی رہتی ہے کہ بیٹی کا کہیں رشتہ ہو جائے، لڑکا نیک ہو ، بے شک غریب مزدور ہو مگر میری بیٹی کو عزت کی زندگی دے۔ اس دن سے منشی غیاث کو اماں سے ہمدردی ہو گئی۔ وہ ہمارا چال چلن دیکھتا رہا اور ایک روز ماں کو روک کر بولا۔ اماں میں بھی ایک غریب مزدور ہی ہوں، کچھ پڑھا لکھا ہوں، ٹھیکیدار کا منشی ہوں۔ گھر میرا اپنا ہے، تنخواہ ٹھیکیدار صاحب اچھی دیتے ہیں کہ دیانتداری سے روپے پیسے کا حساب کتاب رکھتا ہوں۔ یوں ماں نے اس سے میرا نکاح کر دیا۔ غیاث زیادہ دولت مند نہ تھا لیکن وہ کہیں سے بھی کما کر میری ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ میں ہر کام اپنی مرضی سے کرتی تھی۔ اس کو یہی خوشی بہت تھی کہ میں نے سوتن کی دو بیٹیوں کے بعد اس کو بیٹا دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ چاہتی تو قناعت سے کام لے کر اپنی پُرسکون زندگی میں ضم ہو جاتی مگر جن کے حالات ابتدا میں دگرگوں رہے ہوں شاید ان کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ میری بھی شخصیت میں کجی رہ گئی تھی۔ میں یہاں بھی مطمئن نہ تھی۔ اپنی زندگی میں کمی محسوس کرتی تھی۔ کوٹھیوں میں کام کرتے رہنے سے بڑی کوٹھیوں کی مالکہ بننے کی حسرت کہیں دل میں چھپ کر بیٹھ رہی تھی اور خواہشوں کا کینسر میرے اندر زہر کی طرح پھیلتا جارہا تھا۔ غیاث کو مجھ سے واقعی محبت تھی۔ اس نے میرے لئے دن رات کام کیا۔ وہ تمام آمدنی میرے ہاتھ پر رکھ دیا کرتا تھا۔ میں نے اسے کہہ کر اپنی دو بہنوں کی شادیاں کیں، بھائی کو اسکول میں داخل کروایا اور اس کے لئے کپڑے، جوتے چیزیں پہنچاتی رہتی۔ میرا بیٹا الیاس اپنی بڑی ماں سے زیادہ مانوس تھا۔ اس کی سوتیلی بہنیں اس کو ہر وقت گود میں اٹھائے رکھتی تھیں۔ سجاتی سنوارتی تھیں، سوتن نے میرے بیٹے کو حقیقی ماں کا پیار دیا۔ وہ عقل مند میری بے چین فطرت کو سمجھ چکی تھی۔ مجھ کو اپنے بیٹے سے کوئی خاص انس نہیں تھا بلکہ یوں کہوں کہ شوہر اور اس کے گھر ، کسی سے بھی محبت نہ ہو سکی۔ یوں لگتا جیسے کہ میرا گھر نہیں بلکہ میری سوتن کا گھر ہے۔ غیاث کا ٹھیکیدار کبھی کبھی اس کو اپنی گاڑی میں گھر سے اٹھانے آتا تھا۔ اس نے ایک بار مجھے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کے بعد وہ بہانے سے ہمارے گھر آنے لگا۔ میرے بچے کو پیار کرتا، اسے گھمانے لے جانے لگا تا کہ میری توجہ اس کی طرف مبذول ہو۔ میری روح دولت کی پیاسی ہو گئی تھی۔ ٹھیکیدار اپنے حربوں میں کامیاب ہو گیا۔ میں اس شخص پر توجہ دینے لگی۔ غیاث گھر پر نہ بھی ہوتے اور وہ آجاتا تو میں چائے بسکٹ سے تواضع کرتی۔ اس کا نام فیروز تھا۔ میری سوتن پردہ کرتی تھی جبکہ میں پردہ نہیں کرتی تھی۔ یوں غیاث کے گھر رہ کر فیروز میری زندگی میں آ گیا۔ اس نے مجھے سونے کے زیورات بنوا کر دیئے جو میں ماں کے پاس چھپا آتی تھی۔ میں سونے کی چمک دمک دیکھ اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔

کچھ ہی دنوں بعد میری سوتن کو حالات کا اندازہ ہو گیا۔ غیاث کو بھی شک رہنے لگا لیکن ان دونوں نے نہ ٹوکا اور زبان سے کچھ نہ کہا۔ فیروز نے مجھ پر پیسہ لٹایا، تو میں نے غیاث سے طلاق مانگنی شروع کر دی۔ انہی دنوں ابا وفات پا گیا۔ ٹھیکیدار نے اس کی تجہیز وتدفین کی اور ماں کو دو کمروں کا پکا مکان بھی بنوادیا کہ مزدور بھی اس کے اپنے تھے اور تعمیر کا سامان بھی ڈھیروں اس کی تحویل میں رہتا تھا۔ ماں کو اندازہ نہ تھا کہ وہ یہ عنایتیں کیوں کر رہا ہے۔ بس پھر کیا تھا پہلی بار دولت کا چسکا لگا تو میرا دماغ خراب ہو گیا۔ میں بات بات پر غیاث سے لڑنے لگی تو اس نے مجھے طلاق دے دی۔ میں نے بیٹا بھی اس کو دے دیا کیونکہ وہ میری سوتن سے پلا ہوا تھا۔ طلاق کے بعد میں چند دن ماں کے گھر رہی، پھر ٹھیکیدار کے ایک دوست کے فلیٹ میں آئی۔ بہت خوش تھی، سمجھ رہی تھی کہ اب میرا خواب پورا ہو گا اور میں ایک بڑی کوٹھی کی مالکہ بن کر رہوں گی۔ میں نے نکاح کی بات کی۔ فیروز نے کہا۔ فی الحال تم میری مہمان ہو ، عدت کی مدت تو پوری ہونے دو ورنہ لوگ کیا کہیں گے ؟ وہ ہم پر فتوے لگائیں گے۔ دن گزرتے گئے۔ فیروز کا دوست ایک شریف آدمی تھا۔ جانے فیروز نے اس سے کیا بات کی تھی، وہ دروازے سے اندر بھی نہیں آتا تھا، جو چیز دینی ہوتی، دروازے کے باہر سے ہی دے کر چلا جاتا تھا۔ عدت کی مدت بھی گزر گئی۔ فیروز ایسے ہی مجھے بے وقوف بناتا رہا۔ جب آتا ہر بار میں نکاح کا کہتی اور وہ جواب دیتا، میں تمہارے پاس ہوں، تم میرے پاس ہو ، اب اتنی بھی کیا جلدی ہے نکاح کی۔ ایک سال اس نے ایسے ہی نکال دیا۔ جب نکاح کا نام لینے لگتی، ناراض ہو جاتا۔ اس نے مجھے باندی بنا کر رکھا ہوا تھا۔ وہ دن بھی آگیا کہ وہ ایک ماہ تک گھر نہ آیا۔ تنہائی اور خوف سے میں مرنے لگی۔ اس کے انتظار میں پریشان تھی کہ ایک دن چند آدمی آئے اور فلیٹ خالی کرنے کو کہا۔ میں نے کہا۔ میرے شوہر فیروز آجائیں تو ان سے بات کرنا۔ وہ بولے۔ وہ تو فراڈ کے کیس میں گرفتار ہو چکا ہے ، ہم نے اس سے بات کی ہے ، اسی نے کہا ہے کہ تم اپنا فلیٹ اس عورت سے خالی کر والو۔ وہ میری بیوی نہیں ہے ، یہ بات سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ کیا انسان اتنے بھی بے رحم ہو سکتے ہیں۔ میں نے سوچا۔ ہاں اتنے بھی بے رحم ہو سکتے ہیں کیونکہ میں بھی تو اتنی بے رحم ہو گئی تھی۔ غیاث جیسے شریف آدمی کو چھوڑا، حتی کہ اپنے معصوم بچے پر بھی مجھے رحم نہ آیا۔ دولت کے پیچھے زندگی برباد کر لی۔ میں نے ان مردوں سے الجھنا مناسب نہ سمجھا۔ سوچا یہ بے عزتی کر دیں گے۔ میں اکیلی کیا کر سکتی ہوں۔ اپنا مختصرسا سامان اٹھایا اور ماں کے گھر آگئی۔ ماں کو اس بات کا بڑا غم تھا کہ میں نے غیاث کا گھر کیوں چھوڑا جبکہ وہ غریب ہماری تمام ضرورتیں پوری کر سکتا تھا۔

ماں مجھ سے بہت ناراض تھی مگر جب میں روتی ہوئی اس کے پاس گئی تو اس نے مجھے گلے لگا لیا لیکن بہن بھائی تو ماں نہیں ہو سکتے۔ وہ بڑے اور سیانے ہو چکے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت برا بھلا کہا اور دھتکار دیا۔ کہا کہ تم بدکردار ہو۔ تم جیسی بدکردار کو ہم گھر میں نہیں گھسنے دیں گے۔ تمہاری وجہ سے ہمیں زمانے کی باتیں سننی پڑیں گی ، اب تم یہ چاہتی ہو کہ ہم تمہاری خاطر یہ گھر، یہ محلہ چھوڑ دیں۔ غیاث بھائی یہاں آ کر دھاڑیں مار مار کر رو کر گئے ہیں۔ سارے محلے نے تمہاری بے وفائی کی روداد سنی ہے۔ جب ماں بہنیں گھر گھر کام کرتی تھیں تب کو ٹھیوں والے ہم کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اب ہمارے پاس کھانے کو سب کچھ ہے ، ہم پکے گھر میں رہتے ہیں، اجلے کپڑے پہنتے ہیں لیکن تمہاری وجہ سے لوگ ہمیں منہ نہیں لگاتے ہیں۔ بوڑھی ماں ٹکر ٹکر مجھے دیکھتی رہی اور بھائیوں نے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ میرے کپڑوں کی گٹھری بھی انہوں نے اٹھا کر سڑک پر پھینک دی۔ خدا نے غیاث جیسا اچھا شوہر دے کر ایک بار مجھے سنبھلنے کا موقع دیا تھا اور میں نے اس کو گنوا دیا۔ اب میں نفرتوں اور ٹھوکروں ہی کے لائق تھی۔ پھر بھی کوئی دروازے نہ کھلا دیکھ کر میں سوتن کے گھر چلی گئی۔ غیاث نے مجھے قبول نہ کیا کیونکہ اس کے گھر پر اب میرا کوئی حق نہ تھا۔ میں نے کہا۔ میرابیٹا ہی دے دو۔ غیاث نے جواب دیا۔ تیری جیسی عورت اس کو کیونکر پالے گی، تیرا تو اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ سوتن نے پھر بھی ترس کیا اور بیٹا میری گود میں دے دیا۔ وہ پائوں پائوں چلتا میرے پاس آیا، مجھے پہلی بار اپنے مجرم ہونے کا شدت سے احساس ہوا۔ میں نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ وہ مجھے اجنبیت سے تکتا رہا، پھر دوڑ کر میری سوتن کے پاس چلا گیا اور اس کے گلے سے چمٹ گیا۔ اس نے مٹر کر بھی مجھے نہیں دیکھا۔ میری سوتن نے غیاث سے کہا۔ اس کو سر چھپانے کی جگہ دے دو۔ طلاق دے چکا ہوں۔ اب کیوں کر اسے رکھ سکتا ہوں۔ میں روتی ہوئی مایوس وہاں سے نکل آئی۔ آخری در بیگم واصف کا تھا، وہاں وہ ناگ رہتا تھا جس نے پہلی بار مجھ کو ڈسنے کی کوشش کی تھی۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ان کے گھر میں قدم رکھ دیا۔ واصف صاحب نے بتایا کہ بیگم کی وفات ہو چکی ہے ، میں گھر میں اکیلا رہتا ہوں۔ عارف اپنی بیوی کے ساتھ دبئی ہوتا ہے، کبھی کبھی آجاتا ہے۔ گھر تو اکیلا ہے اور تم میری بیٹی جیسی ہو لیکن کیا تم یہاں رہ پائو گی۔ انہوں نے ایک دوست کے گھر مجھے ملازمہ رکھوا دیا جن کی ماں کو فالج ہو گیا تھا۔ ان کو اس بیمار کے لئے مستقل خدمت گار کی ضرورت تھی۔ دن گزرتے رہے۔ فالج کی مرئضہ بھی وفات پاگئی مگر ان گھر والوں نے مجھے نہیں نکالا، اپنا سرونٹ کوارٹر رہنے کو دے دیا۔ مجھے شادی سے نفرت ہو چکی تھی۔ ان کی برسوں خدمت کر کے دو وقت کی روٹی کھاتی رہی، یہاں تک کہ ایک دن میرابیٹا مجھے لینے آگیا۔ غیاث فوت ہو چکے تھے اور بیٹے کو میری سوتن نے بھیجا تھا۔ الیاس پڑھ لکھ کر اچھی نوکری پر لگ گیا تھا۔ میری سوتن کو میری مصیبتوں اور آلام کا پتا تھا۔ بیٹے کی وجہ سے میری خبر رکھتی تھی۔ وہی ایک دن بیٹے کے ساتھ آئی اور میرا سامان اٹھوا کر مجھے گھر لے آئی۔ یوں اس خاندانی اور شریف عورت کی وجہ سے مجھے کھویا ہوا گھر مل گیا۔ آج بڑھاپے میں سکون سے بیٹے کے پاس رہ رہی ہوں۔ میرے بھائی بہن تو مجھ سے نہیں ملتے مگر بوڑھی ماں ملنے آجاتی ہے۔ غیاث شریف انسان تھے تبھی ان کے خون نے مجھ سے وفا کی اور اس عظیم عورت کے قدموں میں بیٹھتی ہوں جس کو لوگ میری سوتن کہتے ہیں۔ وہ مرحوم غیاث کی سگی عم زاد ہے، اگر وہ مجھے سہارا نہ دیتی تو آج میں سڑکوں پر بھیک مانگ رہی ہوتی۔

Leave a Comment